پیر، 27 اکتوبر، 2014

تحفظ کا قانون یا قانون کا تحفظ



عائشہ خان


سپریم کورٹ آف پاکستان-Imposter TV

کچھ عرصے پہلے تک جب ابھی صوبائی اسمبلیوں نے گھریلو تشدد اور کام پر جنسی استحصال کے حوالے سے قانون سازی شروع نہیں کی تھی، 1961 کے مسلم عائلی قوانین (Muslim Family Laws Ordinances 1961) عورتوں کے لئے سب سے زیادہ ترقی پسند قوانین سمجھے جاتے تھے۔ MFLO  جن کو ایوب خان کی فوجی حکومت نے رائج کیا شروع سے ہی متنازع رہے۔ اس وقت بھی دائیں بازو کے مذہبی حلقوں سے آواز اٹھی کہ مسلمانوں کے ذاتی اور خاندانی مسائل شرعی نہ کہ سوِل قوانین کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان قوانین کے رائج ہونے سے پہلے صرف برطانوی زمانے کے نامکمل مسلم عائلی قوانین کا ورثہ موجود تھا۔ جن کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے 1953 میں راشد کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ آیا کہ اس وقت کے قوانین عورتوں کو معاشرے میں اسلامی اصولوں کے مطابق رتبہ دیتے ہیں کہ نہیں۔ اس کمیشن نے اپنے کام کا آغاز اس بنیاد سے کیا کہ چونکہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس مقصد کیلئے قیام میں آیا ہے کہ یہاں مسلمان اپنی زند گی اسلامی بنیادوں پر استوار کریں، لہذا اس مقصد کے حصول میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔

پیر، 29 ستمبر، 2014

کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور غریب ترین لوگوں کے حالات زندگی






مصباح بالاگام والا اور حارث گزدر




                                            ایک عورت روٹی پکاتے ہوئے۔( ریسرچ سائٹ کراچی

    فوٹو:  نائلہ محمود      Collective for Social Science Research/

آج سے چند سال پہلے 2008-2009))  اچانک عالمی معشیت زبردست بحران کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی۔ اس بین الاقوامی معاشی بحران کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ تیل اور دوسرے خام مال کے ساتھ ساتھ اناج اور دوسری کھانے پینے کی چیزوں کے دام یکا یک پروان چڑھتے گئے۔ اور ملکوں کی طرح پا کستان میں بھی ان عالمی معاشی قوتوں کا اثر نظر آیا اور قومی معشیت بھی بحران کا شکار ہوئی۔ ان حالات میں ایک بڑا سوال یہ اٹھا کہ کھانے پینے کی اشیابالخصوص اناج کی مہنگائی کا غریبوں اور غربت پر کیا اثر پڑے گا۔ چونکہ یہ بھی واضح تھا کہ دنیا اب ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جس میں عالمی منڈی میں بنیادی استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ رہے گا، مختلف لوگوں نے ان موضوعا ت پر تحقیق پر توجہ دینا شروع کی۔

بدھ، 10 ستمبر، 2014

2014کا سیلاب۔ 2010 سے ہم نےکیا سیکھا؟





حارث گزدر



فوٹو: /Evan Schneider اقوام متحدہ۔ پنجاب میں سیلاب،پاکستان 2010


6 ستمبرکےدن محکمہ موسمیات پاکستان کے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن (FFD) نے بتایا کہ چناب اورجہلم دونوں دریاؤں میں طغیانی ہے۔ 8 تاریخ کوفلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نےبتایاکہ تریموں پرجہاں ان دریاؤں کاسنگم واقع ہےاب ایک دوسراسیلابی ریلامتوقع ہے۔ اس وقت تک سینکڑوں گاؤں پہلےہی ڈوب چکے تھے۔ آج کے دن پنجندخطرےکی زدمیں ہےاورمظفرگڑھ ضلع کی دو تحصیلوں، علی پور اور جتوئی میں شدید سیلاب کا ڈرہے۔ نیچےگڈو،سکھر اورکوٹری بیراجوں کےنشیبی علاقےمنتظرہیں۔ سیلاب بڑا ہے اورشاید اوربڑھے۔

بدھ، 9 جولائی، 2014

پاکستان میں خو را ک کی فورٹیفیکیشن(Fortification) : ایک قابل عمل تجویز(حا لیہ جا ئزہ رپورٹ)

سمر زبیری



فوٹو: فرحین ایوب خان۔ آغا خان یورنیورسٹی


  DFIDپاکستان کے لیے MQSUNکی رہنما ئی میں تیا رکردہ حا لیہ رپورٹ پاکستان میں خو را ک کی فورٹیفیکیشن(Fortification)  کی تائید کرتی ہے۔ micronutrients کی کمی یا "پوشیدہ بھو ک" سے نمٹنے کے لیے مقا می تجزیےکی سخت ضرورت ہے۔    نیشنل نیوٹریشن سروے(NNS 2011) کے مطابق پاکستان میں پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی نصف سے زیادہ تعداد انیمیا (خو ن کی کمی) اور وٹامنA  کی کمی کاشکارہے39 ، فیصد بچے زنک کی کمی کا شکار ہیں۔ جبکہ ماؤں کی نصف تعداد انیمیا کےمرض کا شکار ہے اور 42 فیصد  وٹامن A اور زنک کی کمی کا شکارہیں ۔

اس رپورٹ میں پاکستان میں خوراک کی فورٹیفیکیشن کے حوا لے سےکی گئی کاوشوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطا بق قا نون سازی کا فقدان اور کمزور ما نیٹرنگ اور تحقیق کا نظام اس ریگولیٹری ماحول میں بڑی کمزوری ہے، جبکہ نجی شعبہ کو مینوفیکچرنگ کی سطع پراضافی ان پٹز(inputs) کاحصول اور اندرونی کوالٹی کنٹرول کے نظام جیسی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اس کےعلاوہ رپورٹ میں چار منتخب منصوبوں کے ممکنہ نفازاوران کےاثرات کا تعین کرتےہوئے جا ئزہ پیش کیا گیا ہے۔ منصوبے درج زیل ہیں:


1۔ گندم کےآٹےکی فولادکےساتھ فورٹیفیکیشن؛
2۔ خوردنی تیل کی وٹامن A اورD کےساتھ فورٹیفیکیشن؛ 
3۔ گندم کی فولاداورزنک کےساتھ بائیوفورٹیفیکیشن؛
4۔  کیمیائی کھا دوں کی زنک کےسا تھ فورٹیفیکیشن۔

ویسےتوان چاروں منصوبوں کا تعلق زراعت کےشعبہ سےہے۔ پہلےدو منصو بے زرعی اجناس میں مصنوعی طورپرmicronutrients کااضافہ کرتے ہیں اور رپورٹ کےمطابق یہ منصوبے وسیع پیمانے پرmicronutrients کی فراہمی کے لیےقابل عمل ہیں۔ جبکہ باقی دومنصوبوں کا تعلق براہ راست کھیتی باڑی سے ہے، یعنی اجناس میں بزات خود جدید ٹیکنا لوجی کے زریعے micronutrients کااضافہ، لیکن ان پرعمل کرنے سے پہلے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جاری  LANSAکی تحقیق کاایک اہم سوال یہ ہے کہ زرعی ویلیوچین
(agri-food value chain) کونیوٹریشن کے فروغ کے لیےکس طرح مؤثربنایاجاسکتاہے؟ مجموعی طورپرہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ رپورٹ ہمارے اس تحقیقی مطالعہ کے لیے بنیادفراہم کرتی ہے۔
    
 LANSA پرمزیدپڑھنےکےلیےیہاں کلک کریں۔