جمعرات، 5 مارچ، 2015

DNA ٹیسٹ، انصاف کی تلاش

عائشہ خان


حالیہ شائع ہونے والی خبر کے مطابق سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف اور قانون نے ملک میں جنسی زیادتی کے خلاف قانون میں ترامیم کی منظوری دے دی۔ ان ترامیم کے مطابق DNA ٹیسٹ کو جنسی زیادتی کے مقدمات میں ایک نہایت اہم حیثیت حاصل ھوگی۔ ان ترامیم میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ زیادتی کا شکار ہونے والے کے طبی معائنے کیلئے سرکاری ہسپتالوں کو مخصوص کیا جائے اور مقدمے کی سماعت کے دوران ہر قسم کی کردارکشی کو ممنوع قرار دیا جائے۔

یہ بات باعث حیرت نہیں کہ ترامیم کی تجویز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والی خاتون سینیٹر صغریٰ امام اور سابقہ وزیر قانون فاروق ایچ نائک کی جانب سے پیش کی گئیں۔ اس پارٹی کی جانب سے ماضی میں بھی عورتوں کی بہتری کیلئے کئی ترامیم منظور کی جاچکی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ عورتوں کے تحفظ کیلئے
Prevention of Anti-Women Practices Act 2011،
Acid Control and Acid Crimes Prevention Act 2010،
Prevention of Anti-Women Practices (Criminal Law Amendment) Act 2011اور
Women in Distress and Detention Fund (Amendment) Act 2011بھی انھی کی کاوشوں  کا  نتیجہ تھیں۔ (پی پی پی) کی صوبائی سطح پر قانون سازی کی مزید دو مثالوں میں عورتوں پر گھریلو تشدد کو روکنے کا قانون
Sindh Domestic Violence (Prevention and Protection) Act 2013 ہے اور کم عمری میں شادیوں پر پابندی کا قانون Sindh Child Marriages Restraint Bill 2013 ہے جس میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر بڑھا کر 18 سال کردی گئی ہے۔

یہ روش اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ معاشرے میں مذہبی تنگ نظری اور لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی بات تسلیم کروانے کا ماحول عام ہونے کے باوجود قانون ساز اداروں میں ایسے حلقے بھی موجود ہیں جو مساوات اور انصاف جیسی اقدار کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے سب عورتوں سے زبردستی کو مردانگی کی علامت نہیں سمجھتے ہیں۔

صدر مشرف کی دور میں عورتوں کے تحفظ کا قانون
Protection of Women (Criminal Law Amendment) Act 2006
جس کا کام جنسی زیادتی اور زنا کے درمیان فرق کو واضح کرنا تھا، اسطرح کے اگر عورت کسی پر زنا کا الزام لگائے اور جرم ثابت نہ ہو پائے تو وہ زنا سے مستثنیٰ قرار دی جائے گی، اس کے بارے میں سابقہ امیر جماعت اسلامی منور حسن نے گزشتہ سال ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے۔ حسن کے نزدیک یہ ایک نامناسب بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ عورت کے تحفظ کا یہ قانون معاشرے میں ’’برہنگی، فحاشی اور بےحیائی‘‘ پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ انھوں نے شرع میں (حد، سزا کیلئے) زنا کے جرم میں چار گواہوں کی موجودگی کی شرط کا کچھ اسطرح دفاع کیا کہ کوئی مہذب انسان اس قبیح فعل کا گواہ نہیں بن سکتا لہٰذا اس گناہ کو ثابت کرنا ناممکن ہوگا۔ ان کے مطابق اس شرط کا اصل مقصد یہ ہے کہ عورت اور مرد اس گناہ پر خاموشی اختیار کریں۔ انھوں نے کہا کہ’’ گواہوں کی غیر موجودگی میں عورت کا خاموش رہنا ہی بہتر ہے‘‘۔

DNA ٹیسٹ کی مخالفت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اگر یہ جنسی زیادتی کے خلاف قانون میں شامل کردیا گیا تو مجرم کی شناخت کو ثابت کر دے گا اور مظلوم کے دفاع اور استغاثہ کے کیس کو بھی مضبوط کرے گا اور جماعت اسلامی کے طریقہ انصاف کے مطابق جرم پر پردہ ڈالنا ناممکن ہوگا۔

جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق نے پارٹی کی ویب سائٹ پر اپنے حالیہ بیان میں عورتوں کے حقوق کیلئے ایک مسودہ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جو جلد ہی قوم کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کا وومن ونگ نہایت متحرک ہے، اور اعلی تعلیم یافتہ اور اپنی بات منوانے والی ایسی خواتین پر مشتمل ہے جو ایک واضح سوچ رکھتی ہیں اور پاکستان میں منصف اسلامی ریاست قائم کرنے میں اپنے کردار سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ وہ جماعت کے مرد لیڈران کو زنا اور جنسی زیادتی میں تفریق کرنا سکھائیں اور سائنسی شواہد کی روشنی میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اہمیت تسلیم کروائیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی جو جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) کے سینیٹر بھی ہیں کی جانب سے ان مذہبی حلقوں کے موقف کی تائید میں کئی بیانات سامنے آئے جس میں انھوں نے نہ صرف ملزم کے DNA  ٹیسٹ کی مخالفت کی بلکہ وہ کم عمر بچیوں سے شادی پر پابندی، ایک وقت میں ایک سے زائد شادیاں کرنے پر پابندی، عمل جراحی کی مدد سے جنسی تبدیلی اور ٹیسٹ ٹیوب طریقہ پیدائش سے بھی اختلاف رکھتے تھے جس کی وضاحت انکے گزشتہ بیانات سے بھی ہوتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی کونسل مانی جاتی ہے اس میں عالم دین کی شمولیت ہونی چاہئے نہ کہ سیاسی شخصیات کی۔ صدر زرداری کے دور میں شیرانی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ ایک حیران کن امر تھا جو ایک سیاسی گٹھ جوڑھ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مختلف اخباری ذرائع کے مطابق شیرانی صاحب کی باقائدہ تعلیم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور انکی تعلیمی قابلیت کوئٹہ اور بنوں کے مدارس تک محدود ہے۔

دائیں بازو کے مذہبی حلقے اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ سپریم کورٹ کے (سلمان راجہ بمقابل حکومت پنجاب   SCMR 2013) فیصلے کے مطابق جنسی زیادتی کے مقدمات میں DNA ٹیسٹ کا حکم اور اس سے ملنے والے شواہد کو استغاثہ میں شامل کرنا لازم قراردیا گیا ہے۔ اس حکم کی باوجود اس ضمن میں قانون سازی ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔   

ایوان نے بھی اس ضمن میں ایک اہم اور مثبت قدم اٹھایا ہے پر کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ قیادت ان ترامیم کی حمایت کرے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے برعکس انکی قیادت کی جانب سےعورتوں کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی پر ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے جبکہ مذہبی حلقوں سے انکی گہری موافقت کی روش پائی جاتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں