منگل، 14 اپریل، 2015

حمزہ علَوی کے مفکرانہ تجزیے-غیر یقینی صورتحال سے نجات کا ذریعہ

حسن زیب عباسی


حمزہعلوی  (1921-2003)/http://tinyurl.com/qf4b2hb

الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے مبصرین پے در پے رونما ہونے والے واقعات کی تشریح کرنے اورخود ساختہ قیاس پر مبنی  سیاسی تجزیے پیش کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ آج ٹیلی ویژن پروگرامروں پر صرف ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح       ہو جاتی ہے کہ پاکستان بحران کا شکار ہے۔ اس لیے نہیں کہ ریاست کو واقعی  تباہی کے خطرے کا سامنا ہے بلکہ شاید اس لیے کہ حالات و واقعات پر کسی کی گرفت نہیں۔ 

 تجزیہ نگاروں میں پائی جانے والی عام سوچ کے مطابق زیادہ تر سیاسی مسائل کرپٹ سیاستدانوں یا  مہم جو جرنیلوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جو ملک کو ایک کے بعد دوسرے بحران کا شکار رکھتے ہیں لیکن یہ سطحی تصور فکری پسماندگی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ان حالات میں حمزہ علَوی جیسے گہری سوچ رکھنے والے مفکروں جو حالات کا دیر پا تجزیہ  کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں کے کام کو شاید ہی سراہا جاتا ہو۔ علَوی  تیزی سے بدلتے سیاسی منظر نامے کا تھیوری (theory) کے حوالے سے اور تاریخی پس منظر میں تجزیہ کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ حالات کو تھیوری (theory) سے جوڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ سوچ شخصیات تک محدود نہیں ہے بلکہ مختلف کرداروں اور ان کے محرکات تک پہنچتی ہے۔


علَوی کی سیاسیات کےحوالے سے خدمات کا بڑا حصہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تشکیل پانے والی پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں کی غیر معمولی طاقت پر روشنی ڈالنا تھی۔ ان کی  کئی تحریروں کا محور پاکستان کے دو بڑے اداروں ملٹری اور سول بیوروکریسی کی غیر معمولی طاقت تھی۔ انھوں نے نوآبادیاتی پالیسی کو ان اداروں کو غیر معمولی طاقت دیئے جانے کی وجہ بتایا اور وضاحت کی کہ کس طرح       یہ ادارے معاشرے کی ترقی کے بجائے، سیاسی اختیا ر حاصل کرنے اور شہری حکومت کے انتظام پر قبضہ کرنے کا ذریعہ بنے۔[i] سیاسی نمائندگی کرنے والے اداروں اور ملٹری– سول بیوروکریسی کے درمیان موجود کھنچاؤں کی تاریخ بھی اسی تھیوری(theory) سے وابستہ ہے۔

گو کہ سیاسی تبدیلیوں کو واقعات اور شخصیات کے تناظر میں دیکھنا آسان کام ہے پر ایسے تجزیات  دیر پا ثابت نہیں ہوتے۔ ان تجزیات میں سیاستدانوں کی کرپشن کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تاکہ اس سوچ کو فروغ دیا جاسکے کہ  با اثر طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان انفرادی طور پر کرپٹ ہیں اور انکا کام صرف ریاست کے وسائل کو لوٹنا ہے۔ فوجی قیادت بھی جب اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو انھی بیانات کو استعمال کرتی نظرآتی ہے۔ اسی طرح فوج کی سیاست میں مداخلت کو بھی چند جرنیلوں کی انفرادی مہم جوئی تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی عدم توازن کے پیچھے ایسے تاریخی حالات ہیں جن پر موجودہ سیاستدانوں یا جرنیلوں کا کوئی اختیار نہیں۔

روزبروز کے سطحی تجزیات کی عمر چھوٹی ہی ہوتی ہے اور انکی جگہ نئے تجزیات لیتے رہتے ہیں۔ اور یہ غیر مستحکم سوچ بحران کا احساس بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسے تجزیوں میں کل کا بہادر جرنیل آج ایک آمر کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور آج کے ایک دلیر سیاستدان کو کل ایک عادی چور کے طور پر دیکھا جائے گا اورآئندہ پھر اسکو ہیرو تسلیم کرلیا جائے گا۔

علَوی کا کام ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم تاریخ پر توجہ دیں اور حالات کا تجزیہ موجودہ واقعات سے ہٹ کر، تاریخ کی روش کی بنیاد پر کریں۔ اور شاید یہ انکی آج کے مبصرین کو ہدایت بھی ہو کہ وہ شواہد اور تھیوری(theory) کی روشنی میں حالات کو سمجھیں  اور   بحران کی کیفیت سے باہرنکلیں سکیں۔

حمزہ علَوی فاؤنڈیشن  18 اپریل 2015 کو حمزہ علَوی کی 94 سالگرہ کے موقع پر انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ آف پاکستان ( Institute of Chartered Accountant of Pakistan، تین تلوار، کلفٹن، کراچی میں ایک سیمینار منعقد کررہی ہے۔




[i] Shaheed, Z. (2013), Hamza Alavi: Third World Thinker and Activist. Development and Change, 44: 753–768





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں