عائشہ خان
![]() |
سپریم کورٹ آف پاکستان-Imposter TV |
کچھ عرصے پہلے
تک جب ابھی صوبائی اسمبلیوں نے گھریلو تشدد اور کام پر جنسی استحصال کے حوالے سے
قانون سازی شروع نہیں کی تھی، 1961 کے مسلم عائلی قوانین (Muslim Family Laws Ordinances 1961) عورتوں کے لئے سب سے زیادہ ترقی پسند قوانین سمجھے جاتے تھے۔ MFLO جن کو ایوب خان کی فوجی حکومت نے رائج کیا شروع
سے ہی متنازع رہے۔ اس وقت بھی دائیں بازو کے مذہبی حلقوں سے آواز اٹھی کہ
مسلمانوں کے ذاتی اور خاندانی مسائل شرعی نہ کہ سوِل قوانین کے زمرے میں آتے ہیں۔
ان قوانین کے رائج ہونے سے پہلے صرف برطانوی زمانے کے نامکمل مسلم عائلی قوانین کا
ورثہ موجود تھا۔ جن کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے 1953 میں راشد کمیشن بنایا گیا جس
کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ آیا کہ اس وقت کے قوانین عورتوں کو معاشرے میں
اسلامی اصولوں کے مطابق رتبہ دیتے ہیں کہ نہیں۔ اس کمیشن نے اپنے کام کا آغاز اس
بنیاد سے کیا کہ چونکہ
پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس مقصد کیلئے قیام میں آیا ہے کہ یہاں مسلمان
اپنی زند گی اسلامی بنیادوں پر استوار کریں، لہذا اس مقصد کے حصول میں مزید تاخیر
نہیں ہونی چاہیئے۔