پیر، 27 اکتوبر، 2014

تحفظ کا قانون یا قانون کا تحفظ



عائشہ خان


سپریم کورٹ آف پاکستان-Imposter TV

کچھ عرصے پہلے تک جب ابھی صوبائی اسمبلیوں نے گھریلو تشدد اور کام پر جنسی استحصال کے حوالے سے قانون سازی شروع نہیں کی تھی، 1961 کے مسلم عائلی قوانین (Muslim Family Laws Ordinances 1961) عورتوں کے لئے سب سے زیادہ ترقی پسند قوانین سمجھے جاتے تھے۔ MFLO  جن کو ایوب خان کی فوجی حکومت نے رائج کیا شروع سے ہی متنازع رہے۔ اس وقت بھی دائیں بازو کے مذہبی حلقوں سے آواز اٹھی کہ مسلمانوں کے ذاتی اور خاندانی مسائل شرعی نہ کہ سوِل قوانین کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان قوانین کے رائج ہونے سے پہلے صرف برطانوی زمانے کے نامکمل مسلم عائلی قوانین کا ورثہ موجود تھا۔ جن کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے 1953 میں راشد کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ آیا کہ اس وقت کے قوانین عورتوں کو معاشرے میں اسلامی اصولوں کے مطابق رتبہ دیتے ہیں کہ نہیں۔ اس کمیشن نے اپنے کام کا آغاز اس بنیاد سے کیا کہ چونکہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور اس مقصد کیلئے قیام میں آیا ہے کہ یہاں مسلمان اپنی زند گی اسلامی بنیادوں پر استوار کریں، لہذا اس مقصد کے حصول میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔

 ’’کمیشن کے ممبران اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں دیئے گئے اصول اور واضح ہدایات کی لبرل اور پُر عقل تشریح کے ذریعے انسانوں کے درمیان مکمل انصاف کے ساتھ، خوشگوار اور صحتمند خاندانی زندگی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے‘‘ ۔

کمیشن نے ہزاروں افراد کو سوالنامے بھیجے جن کے ذریعے مختلف مسائل پر ان کی رائے معلوم کی گئی۔ مثلاً آیا کہ نکاح کی رسم کے لئے سرکاری نکاح خواں ضروری ہونا چاہیئے یا نہیں۔ کمیشن کی سفارشات پر ایک ممبر مولانا احتشام الحق نے اختلافی نوٹ لکھا۔ انہوں نے فرمایا ’’شرعی معاملات پرہرعام شخص حتٰی کہ اُن فرقوں کے رہنماؤں سے مشورہ جو کہ دائرہِ اسلام سے باہر ہوں، اسلامی شریعت میں تبدیلیاں لانے کے لئے ایک خطرناک دروازہ کھول رہا ہے‘‘۔ کمیشن نے بہرحال اپنا کام جاری رکھا۔

کمیشن کی سفارشات 1956 میں منظرِعام پر آئیں۔ ان میں محتاط انداز سے اسلام میں عورتوں کے حقوق کی تشریح کی گئی تھی۔ مثلاً ایک سے زائد شادی پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی، اور باپ کو بچے کا واحد ولی قرار دیا گیا۔ پھر بھی کمیشن اپنے عصر میں متنازع رہا اور مولانا صاحب کے اختلافی نوٹ کی وجہ سے کئی ایک سفارشات کو حکومت نے نظرانداز کردیا۔

1961 کا MFLO کئی اہم اصلاحات کا باعث بنا۔ برطانوی زمانے کے قوانین میں بےشمار ابہامات موجود تھے۔ طرز طرز کی روایتوں کو قانونی حیثیت حاصل تھی۔ MFLO نے یہ ابہامات ختم کرکے کم اَزکم مسلمان آبادی کے حوالے سے یکساں قانون رائج کیا۔ شادی کی قانونی عمر لڑکیوں کے لئے سولہ (16) سال اور لڑکوں کے لئے اٹھارہ (18) سال رکھی گئی۔ کم عمر میں نکاح کی بہرحال گنجائش موجود رہی۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر بالغ ہونے کی عمر حاصل کرنے پر لڑکی رُخصتی سے انکار کردے تو شادی ختم کی جاسکتی ہے۔  
                                                    
مسلمانوں کیلئے یہ بھی ضروری قرار پایا گیا کہ شادی اور طلاق یونین کونسل (UC) میں رجسٹر کرنا ہوں گی۔ بیوی کو یہ حق ملا کہ وہ بذریعہ عدالتی کاروائی طلاق لے سکے۔ مرد کے لئے یہ لازمی قرار پایا کہ وہ دوسری شادی سے قبل علاقے کی مصالحتی کونسل سے رجوع کرے اور پہلی بیوی سے اجازت لے۔ حلالہ کا روایتی تصور غیر ضروری قرار دیا گیا۔ اور والدین کی وفات کی صورت میں بچوں کو خاندانی جائیداد میں حصہ ملنے لگا۔

1962 سے ہی MFLO کی مخالفت شروع ہوگئی۔ اسمبلی میں ساٹھ MNAs جن میں وزراء بھی شامل تھے، MFLO کو منسوخ کرنے کے لئے ایک بل لے کر آئے۔ تمام چھ خواتین MNAs نے اس بل کی مخالفت کی۔ ان کے علاوہ دیگر چھتیس (36) MNAs نے، جن میں ذوالفقارعلی بھٹو بھی شامل تھے، بل کے خلاف ووٹ ڈالا۔ MFLO کو 1962 کے آئین کا تحفظ حاصل تھا، اور آج بھی اسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔ جسٹس تنزیل الرحمٰن، جو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور سندھ ہائی کورٹ کے جج بھی رہ چکے ہیں، فرماتے ہیں کہ یہ تحفظ اس لئے ہے کیونکہ ’’حلقہ اقتدار کے اندر اور باہر سیکولر(secular) اثرات موجود ہیں‘‘۔

کئی سال بعد جب جنرل ضیاء الحق آئین کو اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر تبدیل کررہے تھے تو دائیں بازو کے مذہبی حلقوں نے دوبارہ  MFLO کے خلاف اپنی مہم شروع کردی۔ یہاں تک کہ مارچ 2014 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین صاحب نے اعلان کیا کہ MFLO میں دوسری شادی پر شرائط لگانا غیر شرعی ہے اور ان شرائط کو ختم ہونا چاہیئے۔ تاحال قانون میں ایسی کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد یہ کام لگایا کہ وہ MFLO کو ختم کرے، تو زیادہ مؤثر تجاویز سامنے نہ آئیں۔ لیکن وزارتِ قانون کے مطا بق MFLO ’’اسلام کے نورانی چہرے پر سیاہ دھبہ تھا‘‘ اور اُسے ختم کردینا چاہیئے۔

1988 میں سندھ ہائی کورٹ نے MFLO کو اسلام سے منافی قرار دیا لیکن 1994 میں سپریم کورٹ نے اپیل پر اس فیصلے کو مسترد کردیا۔ 1999 میں وفاقی شرعی عدالت نے سینتیس(37) درخواستوں کی سماعت کی جن میں  MFLOکے بڑے حصوں کو اسلام کے منافی ہونے کا دعوہ تھا۔ جنوری 2000 میں عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اسلام میں یتیموں کو خاندانی جائیداد میں حصہ دینے کی ہدایت نہیں، البتہ وصیت کے ذریعے یہ ممکن ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ طلاق زبانی اعلان پہ فوراً ہوجاتی ہے۔ اس فیصلے کی بدولت طلاق کا قانونی طریقہ کار متنازع ہو گیا۔

 دو مرتبہ، 2006 اور پھر 2010 میں خواتین MNAs نے MFLO میں عورتوں کے حق میں ترامیم کرانے کی کوشش کی لیکن دونوں بار وہ ناکام رہیں۔

مارچ 2014 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ دوسری شادی کےلئے پہلی بیوی کی اجازت کی شرط غیر شرعی ہے۔ وہ معاملات کو 1961 سے پہلے لے جانا چاہ رہے تھے۔(HRCP)  Human Rights Commission of Pakistan  کا جواب یہ تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اپنے وجود کا کوئی جواز نہیں۔ اگرچہMFLO  کا مقصد تو عورتوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا،  اتنی شدید مخالفت کے باعث اب تو یہ لگتا ہےکہ اس قانون کو خود تحفظ کی ضرورت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں