بدھ، 15 اپریل، 2015

بدلتے معیار



مصباح بالاگام والا
  


 فوٹو: by Nasha Ila


پچھلے دنوں اپنے ساتھیوں کے ساتھ  LANSA  کے ایک تحقیقی مطالعہ "عورتوں کے کھیتوں میں کام کے صحت اور بچوں کی نشونما پر اثرات" کے لیےابتدائی تحقیق کے دوران صوبہ سندھ کے دو علاقوں، شہداد پور اور بدین، کے گوٹھوں میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ہماری اس تحقیق کا مقصد عورتوں کے کھیتوں میں کام  اوربچوں کی دیکھ بھال کے درمیان توازن کے نیوٹریشن (nutrition)،  یعنی صحت اور نشونما پر اثرات کی جانچ کرنا ہے۔ ابتدائی تحقیق کے دوران ہم نے غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں سے انٹرویو کیے، جن میں کم زمین کی ملکیت رکھنے والے ، بٹائی پرکام کرنے والے اور کھیت مزدوروں کے گھرانے شامل تھے۔  ہمارے سوالات دوران حمل احتیاط، شیرخوار اور چھوٹے بچوں کے کھلانے پلانے،صحت کی سہولیات کا حصول اور عورتوں میں بچوں کی پیدائش کے رجحان سے متعلق تھے ۔ صحت کے حوالے سے رائج طور طریقے اور سماجی رشتے اور رابطے خاص توجہ کا مرکز بنے۔


سماجی علوم میں  norm  یا’معیار‘ کی تعریف یوں کی جا سکتی ہےکہ "انسانوں کے کسی گروہ کے درمیان وہ سوچ یا عمل جو مناسب اور ٹھیک سمجھا جائے بالمقابل وہ جو کہ نامناسب اور غلط سمجھا جائے" [1]۔ انٹرویو دینے والی خواتین کی طرف سے بچوں کی دیکھ بھال اور صحت سے متعلق طریقہ کار اور ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو سے ہمیں وہاں رائج معیار اور ان سے متعلق مفید معلومات حاصل ہوئیں۔  گفتگو سے حاصل ہونے والی معلومات کا بغور جائزہ لینے سے یہ سامنے آیا کہ شہداد پور اور بدین میں ماں اور بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے مختلف طرح کے معیاررائج ہیں۔ دونوں جگہوں میں مختلف معیار رائج ہیں اوریہ بھی واضح ہے کہ ان معیاروں میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آئیں ہیں۔

احتیاط بمقابلہ ردعمل  
شہداد پور اور بدین میں لوگوں سے بات چیت کرنے سے ہمیں پتہ چلا کہ  وہاں کے لوگ صحت کی خرابی کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں یعنی کسی حد تک جدید صحت کی سہولیات کےحصول کی طرف رجحان پایا جاتا ہے۔ تاہم ان سہولیات کے حصول کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔ شہداد پور میں لوگ صحت کی سہولیات کا حصول احتیاطی تدابیر کے طور پر لیتے ہیں جبکہ بدین میں ایسا صرف بیماری کے ردعمل کے طور ہی کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، شہداد پورمیں ہمیں پتہ چلا کہ خواتین اب گھر پر بچے کی پیدائش کے روایتی طریقہ کار کے بجائے ہسپتال میں بچے کی پیدائش کو ترجیح دیتی ہیں اور اس کی جو وجہ سامنے آئی وہ یہ ہے کہ، عام طور پر اب عورتوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ روایتی طریقہ کار میں کوئی پیچیدگی نہ ہو جائے۔

شہداد پور کے گاؤں میں بچوں کی پیدائش کے رجحان سے متعلق سو چ اور معیار بھی بدلتے دیکھے گئے تاہم یہ تبدیلی بدین سے قدرے مختلف تھی۔ بچوں کی تعداد سے متعلق گفتگو کے دوران یہ سامنے آیا کہ اب پانچ سے چھ بچوں کی پیدائش قابل ترجیح ہے مگر یہ تعداد پہلے والی نسل کے مقابلے میں  نسبتا کم ہے۔ دوسری طرف بدین میں خواتین بچوں کی تعداد کا خاص خیال نہیں رکھتیں بلکہ عام طور پر سات، آٹھ یا اس سے بھی زیادہ بچوں کا رحجان پایا جاتاہے۔
  

بہتر نگہداشت کا شعور 
بچوں کے کھلانے پلانے کے معیار دونوں جگہوں پر مختلف دیکھے گئے۔ چونکہ صحت کے ماہرین کی طرف سے چھ ماہ کی عمر تک بالخصوص ماں کا دودھ پلانے کی سفارش کی گئی ہے اسلئے ہم نے اسے بچوں کی بہتر دیکھ بھال کے لیے پراکسی  (proxy)یا علامت کے طور پر استعمال کیا۔ شہدادپورمیں چھ ماہ  تک بچوں کو بالخصوص ماں کا دودھ پلانے کا رجحان پایا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ شاید ساری خواتین ایسا نہ کر سکتی ہوں خاص کروہ جو کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے اپنے دودھ پینے والے بچے گھر پر چھوڑ جاتی ہیں۔ تا ہم ان کا یہ کہنا کہ چھ ماہ تک بچوں کو بالخصوص ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے کسی حد تک اس بات کی علامت ہے کہ وہاں بچوں کی بہتر دیکھ بھال کے لیے شعور پایا جاتا ہے۔ بدین میں یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کو چھ ماہ کی عمر تک بالخصوص ماں کا دودھ پلانے کی افادیت کا وہاں ماؤں کو شعور نہیں ہے۔ ہمیں دوران گفتگو یہ پتہ چلا کہ وہاں ایک ماہ کے بچے کو پانی بھی پلایا جا تا ہے اور تین ماہ کی عمر کو پہنچنے تک اکژ نرم غذا بھی دی جاتی ہے ۔

بدلتے ہوئے معیار
اگرچہ ہمارے پاس دونوں جگہوں پر آنے والی تبدیلیوں اور ان کے اثرات سے متعلق اعداد و شمار تو نہیں تاہم دونوں جگہوں پر وقت گزارنے اور وہاں لوگوں کے انٹرویو کرنے سے یہ سامنے آیا کہ شہدادپور میں رائج معیار واضح طور پر بدل رہے ہیں،جبکہ بدین میں ایسا نہیں ہو رہا۔ شہدادپورمیں بھی مختلف سماجی طبقات کے درمیان یہ تبدیلی ایک جیسی نہیں دیکھی گئی، بااثر برادریوں اور پسماندہ سماجی طبقات کے درمیان ایک واضح فرق پایا گیا۔ مثلا، خاصخیلیوں میں یہ معیار تبدیل ہوتے  واضح نظر آئے جبکہ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے بھیلوں میں یہ تبدیلی کسی حد تک بدین میں آنے والے تبدیلی کی طرح ہی ہے۔

دونوں جگہوں پر تعلیمی حیثیت میں فرق، آمدن اور علاقے میں ترقی یا خواتین کی خود مختاری جیسے عوامل وہاں رائج معیار اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ دونوں جگہوں پرصحت کی سہولیات تک رسائی اور ان کی فراہمی کے ذریعوں درمیان پایا جانے والا فرق واضح اثر انداز ہوتا نظر آتا ہے۔ مثلا شہداد پور میں خواتین میں فیملی پلاننگ کے بارے میں آگہی سے متعلق لیڈی ہیلتھ ورکر کا کردار فعال نظر آیا جبکہ بدین میں یہ بتایا گیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکر ان کے گھروں میں نہیں آتی۔ معیار بتدریج تبدیل ہو رہے ہیں، شہداد پور میں خواتین کی  صحت کی سہولیات تک  مسلسل رسائی معیار بدلنے میں نمایاں کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ جب ایک بار کوئی مثبت سوچ یا عمل معیار کی شکل میں رائج ہو جاتا ہے تو موجود ناکافی سہولیات اور وسائل کے باوجود بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

صحت کی سہولیات کی دستیابی کے ساتھ ان کی کوالٹی (quality) میں  بہتری بھی ممکنہ طور پررائج معیاراور ان میں تبدیلی کیلئے اہم ہے۔ شہداد پور میں سرکاری ہسپتال کو حال ہی میں بہتر بنایا گیا۔ اعلیٰ کوالٹی اور مفت صحت کی سہولیات کی دستیابی دراصل لوگوں میں ان سہولیات کا استعمال بڑھانے میں پیش پیش ہے۔ بدین کے گاؤں میں سرکاری طور پر صحت کی مناسب سہولیات کے فقدان نے لوگوں کے پاس پرائیویٹ دستیاب صحت کی سہولیات  کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور نتیجتاَ یہاں صحت کے حوالے سے رائج معیار نیں بدلے کیونکہ وسائل کی کمی بہتر سہولتوں کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے۔

 ہمارے مطالعہ کے ابتدائی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صحت اور سماجی پالیسیوں اور ان کے متوقع فوائد جیسا کہ نیوٹریشن کے فروغ کے لیے بنائے جانے والے منصوبوں کی تیاری اور جانچ کے لے رائج معیارکے تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔ معیار تبدیل ہونے میں وقت لیتے ہیں مگر بدل بھی جاتے ہیں ۔ جیسے شہداد پور میں دیکھا گیا کہ جدید سہولیات کی دستیابی کی وجہ سے ماں اور بچوں کی دیکھ بھال اور صحت کے حوالے سے رائج معیار تبدیل ہوئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تبدیلی اچانک نہیں آتی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی مسئلے سے آگاہی یا وسائل کی دستیابی ہی معیار بدلے، تاہم فعال اداروں کے ذریعے اعلیٰ کوالٹی کی سہولیات کی فراہمی پرانے  معیار بدلنا شروع کرتی ہے اور وقت کے ساتھ نئے معیار ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔


    
[1] Coleman, 1990 qtd in Keefer and Knack (2005), “Social Capital, Social Norms and the New Institutional Economics”

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں