بدھ، 10 ستمبر، 2014

2014کا سیلاب۔ 2010 سے ہم نےکیا سیکھا؟





حارث گزدر



فوٹو: /Evan Schneider اقوام متحدہ۔ پنجاب میں سیلاب،پاکستان 2010


6 ستمبرکےدن محکمہ موسمیات پاکستان کے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن (FFD) نے بتایا کہ چناب اورجہلم دونوں دریاؤں میں طغیانی ہے۔ 8 تاریخ کوفلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نےبتایاکہ تریموں پرجہاں ان دریاؤں کاسنگم واقع ہےاب ایک دوسراسیلابی ریلامتوقع ہے۔ اس وقت تک سینکڑوں گاؤں پہلےہی ڈوب چکے تھے۔ آج کے دن پنجندخطرےکی زدمیں ہےاورمظفرگڑھ ضلع کی دو تحصیلوں، علی پور اور جتوئی میں شدید سیلاب کا ڈرہے۔ نیچےگڈو،سکھر اورکوٹری بیراجوں کےنشیبی علاقےمنتظرہیں۔ سیلاب بڑا ہے اورشاید اوربڑھے۔

ظاہرہےکہ سب سےپہلےتویہ کوشش کی جائیگی کہ بند نہ ٹوٹیں۔ لیکن پچھلےسیلابوں، خاص طور پر 2010 کےسیلاب کی یادابھی تازہ ہے۔ آگےمشکل اورسنگ دل فیصلےہیں جن میں شائدغرض بھی شامل ہوجائے۔ یہ کہاجارہاہےکہ جھنگ صدرکوبچانےکی خاطرتحصیل اٹھارہ ہزاری کو ڈوبناپڑےگا۔ اوراگرخدانخواستہ پنجند بیراج کونقصان کاخطرہ ہواتوتحصیل علی پوراورجتوئی کی قربانی دینا ہوگی۔ ان سخت فیصلوں کے پیچھےتکنیکی معاملات بھی ہونگےاورسیاست بھی۔ ایک آدھ ہفتےمیں پتہ لگ جائیگاکہ کیابچا اورکیاڈوبا۔

اس کےبعدکےمراحل میں کیا کچھ کرنا ہو گا،اس کوسمجھنےکےلیے 2010کےتجربےکویادکرناچائیے۔ وطن کارڈاپنےبیش بہامسائل کےباوجودایک کامیاب تجربہ تھا۔ بےشمارخاندانوں کے لیےوطن کارڈکی رقم نےفوری امداد اورمعاشی بحالی کے درمیان ایک ناگزیرپل کا کام سرانجام دیا۔ کسی سیلاب زدہ علاقہ کے ہرگھرکو مستحق قرار دےکران سب کو رقم پہنچانےسےحالات کافی حد تک سنبھل گئے۔  بینظیرانکم سپورٹ پروگرام(BISP) اوردیگرپروگراموں میں امدادکی فراہمی میں حکومت نےNADRA اور بنکوں کی مدد حاصل کی۔ یہی تجربہ اوراکٹھے کام کی صلاحیت وطن کارڈکے سلسلے میں بھی کار آمد رہی۔

ایک بات جو2010 میں کھل کرواضح ہوئی وہ یہ تھی کہ کسی بھی آفت کےاثرات سب پربرابرنہیں ہوتے۔ جوپہلےسےمعاشی اورسماجی لحاظ سےکمزورہیں ان پرکسی بھی آفت کا اثرنہ صرف زیادہ گہرابلکہ دیرپابھی ہوتا ہے۔ یوں تویہ بات عام فہم کی ہے،لیکن حیرت اس چیزپہ ہےکہ حکومت اور بین الاقوامی تنظیموں کی ترجیحات میں اس امر کی عکاسی نظر نہیں آئی۔ 

زرعی شعبےمیں ساری توجہ ان بڑے کا شت کاروں پر رہی جن کےپاس سرکاری اداروں اور بنکوں سےقرضہ لینےکی طاقت تھی۔ یہ کہاگیاکہ ان کے قرضےمعاف کردئے جائیں۔ ان حالا ت کے پیش نظریہ معقول تجویزتھی۔ لیکن اس بات کی کو ئی ضما نت نہیں تھی کہ وہ غریب اور بے زمین مزدور کسان جوان بڑے کاشتکاروں کےمقروض تھے ان کوبھی کیا کوئی چھوٹ ملےگی کہ نہیں۔

اسی طرح یہ توکہاگیاکہ مکان کی تعمیرکے لیےرقم فراہم کی جائے۔ اورکسی حد تک وطن کارڈکے پیچھےیہی سوچ تھی۔ لیکن یہ نہیں پوچھا گیاکہ جن کے پاس مکان بنانےکیلئےاپنی زمین نہیں ان کا کیا ہو گا۔

سب جانتےہیں پاکستان میں زمین کی ملکیت کتنی غیرہموارہے۔ معاشی طبقات توایک طرف زمین کی ملکیت میں تقریبامردوں کااجارہ ہے۔ معاشی اورسماجی اونچ نیچ کو پس پردہ رکھ کرریاست اوربین الاقوامی اداروں نےظاہرکردیا کہ ان کا جھکاؤکس طرف ہے۔

وطن کارڈ ریاست کی طرف سے شہریوں کیلئےایک احسن قدم تھا۔ متاثرہ علاقوں میں بلا تفریق سب رہائشیوں کوامدادی رقم کی فراہمی اوروہ بھی ایک بہت بڑے پیمانےپر۔ لیکن سیلاب نےتباہیوں کے ساتھ ساتھ یہ موقع بھی فراہم کیاکہ سرکاراوربین الاقوامی ادارےاپنی امدادی کاروائیوں کےزریعے پہلےسےموجوداونچ نیچ اورناانصافیوں کوآڑے ہاتھوں لیں۔ 2010 میں یہ موقع گنوادیاگیا۔ 

اب تو یہ وقت ہی بتائےگاکہ 2014 میں بھی وہی غلطیاں دہرائی جائینگی یا کوئی  نئی تاریخ رقم ہوگی۔ 

1 تبصرہ:

  1. multan pakistan
    Multan sometimes referred to as the “City of Saints Multan,” is a city in Punjab close to the Chenab River. It is an important cultural and economic hub in the southern region of Punjab and is among the top ten cities in Pakistan. The city is rich in history thanks to being among the oldest cities on the Asian subcontinent; there’s lots to do and lots of places to explore in Multan.

    جواب دیںحذف کریں