مصباح بالاگام والا اور حارث گزدر
![]() |
ایک
عورت روٹی پکاتے ہوئے۔( ریسرچ سائٹ کراچی(
فوٹو: نائلہ محمود
Collective for Social Science Research/
|
آج سے چند سال پہلے 2008-2009)) اچانک عالمی معشیت
زبردست بحران کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی۔ اس بین الاقوامی معاشی بحران کا ایک پہلو
یہ بھی تھا کہ تیل اور دوسرے خام مال کے ساتھ ساتھ اناج اور دوسری کھانے پینے کی
چیزوں کے دام یکا یک پروان چڑھتے گئے۔ اور ملکوں کی طرح پا کستان میں بھی ان عالمی
معاشی قوتوں کا اثر نظر آیا اور قومی معشیت بھی بحران کا شکار ہوئی۔ ان حالات میں
ایک بڑا سوال یہ اٹھا کہ کھانے پینے کی اشیابالخصوص اناج کی مہنگائی کا غریبوں اور
غربت پر کیا اثر پڑے گا۔ چونکہ یہ بھی واضح تھا کہ دنیا اب ایک ایسے دور سے گزر
رہی ہے جس میں عالمی منڈی میں بنیادی استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اتار
چڑھاؤ رہے گا، مختلف لوگوں نے ان موضوعا ت پر تحقیق پر توجہ دینا شروع کی۔
پچھلے دو سالوں سے ( 2012 اور
2013) Collective کے ریسرچر بھی اس موضوع
پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ برطانیہ کے IDS اور عالمی تنظیم Oxfam کے تعاون سےدس ملکوں
میں ہونے والی تحقیق کے پاکستانی حصے کی ذمہ داری Collective کے پاس ہے۔
ہماری ٹیم نے 2012 اور 2013 میں ضلع دادو کے چند
گوٹھوں اور کراچی میں واقع محنت کشوں کے
ایک محلہ میں کم آمدنی والے افراد کے تفصیلی انٹریو کیے۔ ہماری تحقیق کا
بنیادی سوال کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ سے متعلق تھا۔ اس
سلسلے میں چند موضوعات پر ہمیں اہم معلومات حاصل ہوئیں۔
غریب ترین لوگوں کی توجہ روٹی پر مرکوز ہے، پیسہ پر نہیں
غریب ترین لوگوں کی زیادہ تر توجہ محض بھوک سے بچا ؤ پر صرف
ہوتی ہے۔ دیہاتی علاقہ میں، جہاں گندم کی فصل بنیادی خوراک کا زریعہ ہے سارے
گھرانے اناج کے حصول میں لگے رہتے ہیں۔ فصل کی کٹائی کا وقت انتہائی اہم ہوتا ہے
جب کسان، ہاری اور مزدور سب ہی کٹائی کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ کٹائی سے اور کٹائی کی مزدوری کے عوض حاصل کیے جانے والا اناج سنبھال کر رکھا جاتا ہے اور کئ مہنیے
استعمال کیا جاتا ہے۔ حتی کہ کچھ لوگ تو اسی اناج کے بدلے دوسری چیزیں خریدتے ہیں۔
ادھر شہر میں بسنے والے غریب جو کہ دیہاڑی کی مزدوری، پھیری لگانے اور بھیک پہ
گزارہ کرتے ہیں، ان کی بھی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کے پاس بھی اتنی گنجائش ہو
کہ ان کے بچے بھوکے نہ سوئیں۔ غریب ترین لوگ اکثر و بیشتر صرف یہی کر پاتے ہیں کہ
انہیں روٹی میسر ہو۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ان کے لیے پیسوں کی صرف یہ اہمیت ہے کہ وہ
بھوک سے بچے رہیں، اور اکثر جب ان کے پاس کمائی کے پیسے نہیں بھی ہوتے تو وہ مانگ
کر یہ بنیادی ضرورت پوری کر لیتے ہیں۔
مٹی میں لکیریں
جن لوگوں کو اکثر
بھوک کا خطرہ لا حق رہتا ہے ان کی زندگیوں میں سماج کی بنا ئی ہوئی لکیریں پختہ
نہیں ہوتیں۔ اگر کھا تے پیتے گھرانوں کا دارومدار پیسوں کی آمدن اور پھر ان پیسوں
سے اشیا کی خرید پر ہے تو غریب ترین لوگوں کا انحصار اور طرح کے وسائل پہ ہوتا ہے۔
مثلاً دوسروں کی طرف سے امداد۔ اس قسم کی مدد سے یقیناً لوگ بھوک سے تو بچ جاتے
ہیں لیکن اس کے بدلے وہ سماجی حیثیت اور عزت سے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کھانے
پینے کی اشیا کی گردش خریدوفروخت کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے ہوتی ہے۔ پڑوسیوں اور
رشتہ داروں کے درمیان، مذہبی رسومات میں، اور خیرات کی شکل میں۔ کھانے پینے کی
اشیا کی اس گردش میں رقم کا لین دین شامل نہیں، تا ہم ان طور طریقوں میں آپس میں
بھی تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً کبھی کبھار رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے درمیان باہمی لین
دین یک طرفہ صورت بھی اختیار کر لیتا ہے، اور وہ لوگ جو مذہبی موقعوں پر خیرات لے
لیتے ہیں کبھی بھیک مانگنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔
پھر گھرانا کیا ہے، انتہائی مفلسی کے عالم میں اس کی تعریف
بھی بدل جاتی ہے۔ اگرعام" گھرانہ وہ اکائی ہے جس کے افراد کا کھانا پینا ایک ہے، تو غربت
میں یہ حدود بھی نرم ہو جاتی ہیں۔ مثلًا بھوک سے بچنے کی خاطر یہ دیکھا گیا کہ لوگ
بچوں کو پڑوسیوں یا رشتہ داروں کی یہاں بھیج دیتے ہیں، جو بچوں کو کھلانے میں
زیادہ قباہت محسوس نہیں کرتے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ مشکل وقت میں جب ایک گھرانہ
معاشی دباؤ میں آتا ہے تو گھر کے مرد اپنے کھانے پینے کا انتظام کہیں باہر تلاش
کرنے لگتے ہیں۔
مہنگائی اور دوسرے دھچکے اور مواقع
چونکہ ہم نےان ہی لوگوں سے دوبارہ ایک سال کے وقفہ کے بعد
ملا قات کی تو ہمیں کچھ ان کی زندگی میں تبدیلیوں کا اندازہ ہوا۔ یہ بات وا ضح
ہوئی کہ غریب ترین لوگوں کی زندگی میں دوسرے واقعات و حادثات شاید قیمتوں کے اتار
چڑھاؤ سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر کسی گھر کے ایک فردکو سرکاری ملازمت ملنے
سے ان کے حالات نمایاں طور پر بہتر ہوئے، تو کہیں اور ایک رکشہ چلانے والا کرایہ نہ
بھر پانے پر اپنے کام سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس کی بیوی کے مطابق اب وہ معاشی دباؤ کی
وجہ سے مایوس رہتا ہے اور مار پیٹ کرنے لگا ہے۔ ایسے لوگ بھی ملے جو کسی آفت کی
وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کے کراچی آگئے، اور پھر شہر میں کمائی کی بدولت اپنے
خاندان کو بھی یہاں بلا لیا۔ ہمارے انٹرویو کے تقریباً ہر گھرانے میں اس طرح کے
دھچکے اور مواقع موجود تھے ، جن کا اثر قیمتوں کے اتارچڑھاؤ سے کہیں زیادہ تھا۔
آئندہ تحقیق
اس سال ہم ایک بار پھر ان ہی لوگوں کے پاس بات چیت کرنے
جائیں گے۔ اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان کے حالات میں کسی طرح کی تبدیلیاں
آئیں جن کا تعلق مہنگائی، کسی حکومتی اقدام یا کسی اور وجہ سے ہو۔ اس بار ہم بات
خوراک کی مناسب رسائی سے آگے لے جانا چاہتے ہیں، اور یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ جو
اشیا لوگ کھا پی رہے ہیں ان کی غزائیت کے بارے میں لوگوں کا کیا خیال ہے۔ اور وقت
کے ساتھ ساتھ خوراک کے حوالے سے لوگوں کی پسند نا پسند اور عادتوں میں کس طرح کی
تبدیلیاں آئیں ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں