جمعہ، 13 فروری، 2015

کراچی سروے کیلئے کھلا ہے



علمأ غوث

فوٹو: حسین بخش ملاح۔ Collective for Social Science Research

بعض دفعہ سروے کے دوران کچھ ایسے حقائق بھی سامنے آجاتے ہیں جو تحقیق کا اصل حصہ تو نہیں ہوتے لیکن بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال Collective for Social Science Research   کی بچوں پر کی جانے والی حالیہ تحقیق کے دوران سامنے آئی۔  19-10سال کے 2000) سے زائد( بچوں کی طرز زندگی پر جمع کی جانے والی یہ معلومات UNICEF اور حکومت سندھ کے تعاون سے کراچی کے 120 متوسط اورغریب طبقوں پر مشتمل علاقوں سے حاصل کی گئ۔ اس سروے کے دوران پیش آنے والے مسائل نے شہر کے طرز زندگی کو باریک بینی سے سمجھنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا جن کا سمجھنا عام حالات میں ممکن نہیں۔

دوسرے متعلقہ موضوعات بھی میرے لئے باعث حیرت بنے۔ جیسے کہ کراچی میں لسانی تشخص واضح طور پر پائے جانے کے باوجود مختلف گروپس اور کمیونٹیز میں سروے کے دوران ایک جیسے مسائل سامنے آئے۔ مختلف لسانی تشخص کہ باوجود ایک طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد عام زندگی میں ایک جیسے مسائل کا شکار تھے۔ پچھلے 20 سالوں میں کراچی کی جانب بڑھتی نقل مکانی نے، جہاں لوگوں کو مختلف گروپس اور کمیونٹیز میں تقسیم کیا ہے وہیں روزمرہ زندگی  میں درپیش  یکساں مسائل ان کو جوڑتے اور سروے کی دوران ایک سا ردعمل سامنے لانے کی وجہ بنتے ہیں۔ جن علاقوں میں لسانی اختلافات نے تصادم کی شکل اختیار کی تھی اس کی بڑی وجہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی تھی۔ اسی وجہ سے ان علاقوں کیلئے نہایت ضروری تھا کہ مقامی زبان بولنے والے سروے ورکرز کو ٹیم میں شامل کیاجائے تاکہ لوگوں کے درمیان ہم آہنگی ہو اور بداعتمادی سے بچا جاسکے۔

اس تحقیق کا ایک مشکل مرحلہ متعلقہ علاقوں تک رسائی بھی تھا۔ شہر کے بگڑتے ہوئے حالات، بڑھتی سیاسی رقابت اور مسلح افراد کی موجودگی لوگوں کے غیر متعلقہ افراد پر عدم اعتماد کی اہم وجوہات تھیں۔ اس صورتحال میں سروے ٹیمز کا کسی بھی   علاقے میں جانے سے پہلے وہاں کے حالات کو جاننا اور کمیونٹیز کے مسائل کو سمجھ کر حساس علاقوں کی نشاندہی کرنا ایک نہایت ضروری امر قرار پایا۔ اس سلسلے میں علاقے کے مقامی لوگوں جن کو ’’ کمیونٹی ریسورز پرسنز‘‘Community Resource Persons)) کا نام دیا گیا  کی مدد حاصل کرنا تاکہ وہاں آسانی سے تحقیق کا کام مکمل کیا جاسکے ایک سودمند حکمت عملی ثابت ہوئی۔ ان میں سے بعض علاقے ایسے بھی تھےجہاں سارا کام ان کمیونٹی ریسورز پرسنز کے تعاون سے مکمل کیا گیا۔

مذہبی انتہا پسند جماعت تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے مسلح گروہ کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی وجہ سے ڈسٹرکٹ ویسٹ اور ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے چند علاقوں میں سروے جاری رکھنا مشکل امر تھا۔ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے کچھ علاقوں میں لوگوں کی مذہبی جماعتوں سے گہری وابستگی نے بھی سروے کے عمل کو متاثر کیا۔ مجموعی طور پر وہاں یہ تاثر بھی پایا گیا کہ عطیہ دینے والے بین القوامی اداروں سے وابستگی شریعت کےخلاف ہے۔ تاہم ان علاقوں میں بھی کمیونٹی ریسورز پرسنز جو تحقیق کے مقصد کو سمجھتے تھے لوگوں تک پہنچنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوئے۔

کچھ علاقوں میں لوگوں کی سروے میں شمولیت میں ہچکچاہٹ ان کے محتاط رویے اور متعلقہ اداروں پر تحفظات کوظاہر کرتی تھی۔ سروے میں حصہ نہ لینے کی ایک اور وجہ شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم اور اجنبی لوگوں پر عدم اعتماد تھی۔ یہ رجہان متوسط طبقے کے لوگوں میں زیادہ واضح طور پر محسوس کیا گیا، جہاں لوگوں نے ادارے کی وابستگی سے متعلق سوال اٹھائے اور سروے کے مقصد کو سمجھنے اور مطمئن ہونے پر اصرار کیا۔ یہاں لوگ این جی اوز کے بارے میں تشویش رکھتے تھے، انھوں نے Collective کے کام کو بھی این جی اوز (NGO) کے کام کا حصہ سمجھا اور اسی لئے سروے کا حصہ بننے سے کتراتے تھے۔ 

بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کی وسیع علاقوں تک رسائی نے بھیCollective کے سروے کو کسی حد تک متاثر کیا۔ ان علاقوں میں بہت سے لوگ Poverty score card سروے میں شامل ہوئے۔ لیکن ایسے گھرانے جو سروے میں حصہ لینے کے باوجود مالی مدد حاصل نہ کرسکے انھوں نے سروے کے عمل کو بے مقصد قرار دیتے ہوئے اس میں شمولیت پر عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔

آخر کار، Collective ان تمام مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب رہا جو کراچی جیسے شہر میں سروے کے دوران پیش آتی ہیں۔ مسائل جیسے کہ لسانی تقسیم، مسلح گروہ کی موجودگی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد، جرائم کا خوف، سکیورٹی کی صورتحال اور ماضی میں ہونے والے سرویز سے مایوسی وہ اہم عوامل تھے جو ان علاقوں میں موجود خاندانوں تک پہنچنے میں ایک بڑی رکاوٹ کا باعث بنے۔ دور سے تو یہ رکاوٹیں ناقابل تسخیر معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت ہم نے جانا کہ مقامی لوگوں کی سروے میں شمولیت، مقامی حالات سے مکمل باخبری، علاقے کی حالات کے مطابق کام کے اوقات کی ترتیب، کچھ ایسے عام اقدام تھے جنہوں نے ہر طرح کے علاقوں میں کام کرنا ممکن بنا دیا۔ اسکے برعکس ہمیں سب سے زیادہ مشکلات متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ لوگوں اور محفوظ علاقوں میں پیش آئیں جہاں موجود کمیونٹیز اور لوگ سیکیورٹی کے حوالے سے فکرمند تھے اور اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

ان تمام چیلنجز کے باوجود، ہم نے جانا کہ کراچی میں سروے کرنا اتنا بھی مشکل کام نہیں جتنا کہ تصور کیا جاتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں